یوں لگے دوست ترا مجھ سے خفا ہو جانا
یوں لگے دوست ترا مجھ سے خفا ہو جانا
جس طرح پھول سے خوشبو کا جدا ہو جانا
یوں لگے دوست ترا مجھ سے خفا ہو جانا
جس طرح پھول سے خوشبو کا جدا ہو جانا
کبھی کبھار اسے دیکھ لیں کہیں مل لیں
یہ کب کہا تھا کہ وہ خوش بدن ہمارا ہو
حال دِل کیوں کر کریں اپنا بیاں اچھی طرح
رو بہ رو ان كے نہیں چلتی زباں اچھی طرح
پتھر تھا، مگر برف کے گالوں کی طرح تھا
ایک شخص اندھیروں میں اُجالوں کی طرح تھا
خوابوں کی طرح تھا، نہ خیالوں کی طرح تھا
وہ علمِ ریاضی کے سوالوں کی طرح تھا
میں تنہا لڑکی دیار شب میں جلاؤں سچ کے دیئے کہاں تک
سیاہ کاروں کی سلطنت میں میں کس طرح آفتاب لکھوں
تیرے حسن پر تعریف بھری کتاب لکھ دیتا
کاش كے تیری وفا تیرے حسن کے برابر ہوتی
وہ جس کو میں سمجھتا رہا کامیاب دن
وہ دن تھا میری عمر کا سب سے خراب دن