بدن كے کرب کو وہ بھی سمجھ نہ پائے گا
بدن كے کرب کو وہ بھی سمجھ نہ پائے گا
میں دِل میں روؤں گی آنكھوں میں مسکراؤں گی
بدن كے کرب کو وہ بھی سمجھ نہ پائے گا
میں دِل میں روؤں گی آنكھوں میں مسکراؤں گی
تم کو چاہا تو خطا کیا ہے بتا دو مجھ کو
دوسرا کوئی تو اپنا سا دکھا دو مجھ کو
تم بھی کیا یاد کرو گے کوئی دوست ہوا کرتا تھا
اتنا چاہنے والا ہمیں کوئی دوست ہوا کرتا تھا
کتنے حسین دن تھے کتنی حسین راتیں تھیں
مجھے ہنسانے والا کوئی دوست ہوا کرتا تھا
ان کے رخسار پہ ڈھلکے ہوئے آنسو توبہ
میں نے شبنم کو بھی شعلوں پہ مچلتے دیکھا
اسے یہ کون بتلائے اسے یہ کون سمجھائے
بہت خاموش رہنے سے تعلق ٹوٹ جاتے ہیں
جو تو نہیں ہے تو یہ مکمل نہ ہو سکیں گی
تری یہی اہمیت ہے میری کہانیوں میں
سب کو رسوا باری باری کیا کرو
ہر موسم میں فتوے جاری کیا کرو
راتوں کا نیندوں سے رشتہ ٹوٹ چکا
اپنے گھر کی پہرے داری کیا کرو
میری بانہوں میں بہکنے کی سزا بھی سن لے
اب بہت دیر میں آزاد کروں گا تجھ کو