تو ہے سورج تجھے معلوم کہاں رات کا دکھ

تو ہے سورج تجھے معلوم کہاں رات کا دکھ
تو کسی روز مرے گھر میں اتر شام کے بعد
تو ہے سورج تجھے معلوم کہاں رات کا دکھ
تو کسی روز مرے گھر میں اتر شام کے بعد
صحرا کی طرح رہتے ہوئے تھک گئی آنکھیں
دکھ کہتا ہے اب کوئی دریا بھی تو دیکھوں
یہ کیا كہ وہ جب چاہے مجھے چھین لے مجھ سے
اپنے لیے وہ شخص تڑپتا بھی تو دیکھوں
جس سمت بھی دیکھوں نظر آتا ہے کہ تم ہو
اے جان جہاں یہ کوئی تم سا ہے کہ تم ہو
بولے تو سہی جھوٹ ہی بولے وہ بلا سے
ظالم کا لب و لہجہ دِل آویز بہت ہے
یاد تیری کو میں بھلا دوں کیا
خط تیرے میں سبھی جلا دوں کیا
میری بے خوابی جان لیتی ہے
کچھ گھڑی خود کو میں سلا دوں کیا
قرب کے نہ وفا کے ہوتے ہیں
سارے جگڑے انا کے ہوتے ہیں
بات نیت کی ہے صرف ورنہ
وقت سارے دعا کے ہوتے ہیں