ہجر کی تنہائی کچھ یوں گزار لیتے ہیں

ہجر کی تنہائی کچھ یوں گزار لیتے ہیں
مختلف زاویوں سے سیلفیی اتار لیتے ہیں
ہجر کی تنہائی کچھ یوں گزار لیتے ہیں
مختلف زاویوں سے سیلفیی اتار لیتے ہیں
عمر ساری تو بہت دور کی بات ہے محسن
اک لمحے كے لیے کاش وہ میرا ہوتا
ہزار برق گرے لاکھ آندھیاں اٹھیں
وہ پھول کھل کے رہیں گے جو کھلنے والے ہیں
نہ بزم اپنی ، نہ ساقی اپنا ، نہ شیشہ اپنا ، نہ جام اپنا
اگر یہی ہے نظام ہستی تو غالب زندگی کو سلام اپنا
جیسی اب ہے ایسی حالت میں نہیں رہ سکتا
میں ہمیشہ تو محبت میں نہیں رہ سکتا
بدن كے کرب کو وہ بھی سمجھ نہ پائے گا
میں دِل سے روؤں گی آنكھوں سے مسکراؤں گی
کون کہتا ہے وقت دہراتا ہے اپنے آپ کو
گر یہ سچ ہے تو میرا بچپن تو لوٹائےکوئی