کاش میں لوٹ جاوّں بچپن کی وادی میں

کاش میں لوٹ جاوّں بچپن کی وادی میں
نہ کوئی ضرورت تھے نہ کوئی ضروری تھا
کاش میں لوٹ جاوّں بچپن کی وادی میں
نہ کوئی ضرورت تھے نہ کوئی ضروری تھا
اے بچپن تجھے یا د ہے
تیرا وہ یوں روتے روتے مسکرا دینا تجھے یاد ہے۔
کیسے کروں میں بیاں تجھ کو
تو اک حسین پل کیسے معمور ہوا تجھے یاد ہے۔
ہوتی اگر خواہش تو پا لینے کا جزبہ
پھر وہ خوشی سے میسر یا ضد تجھے یاد ہے۔
تو اتنا حسیں ! سر سے قدم تلک جھلک میں
تو اتنا خاموش جسے اندیشہ زوال نہ تھا تجھے یاد ہے۔
اشک !اشک آنکھوں میں کب آئیں کوئ خبر نہیں
دل سے کب رخصت ہوئ کوئ خوائش تجھے یاد ہے۔
ایس چہرہ پر نور تھا گویا شمع تھی روشن
رتبہ حسن میں شمس و قمر سے بالا تر تجھے یاد ہے۔ مزید پڑھیں […]
افلاس کی بستی میں جا کر تو دیکھو
وہاں بچے تو ہوتے ہیں مگر بچپن نہیں ہوتا
کبھی ریت کے اونچے ٹیلوں پہ جانا
گھروندے بنانا بنا کے مٹانا
وہ معصوم چاہت کی تصویر اپنی
وہ خوابوں کھلونوں کی جاگیر اپنی
نہ دنیا کا غم تھا نہ رشتوں کے بندھن
بڑی خوب صورت تھی وہ زندگانی
بچپن کی وہ امیری نہ جانے کہاں چلی گئی
جب پانی میں ہمارے بھی جہاز چلا کرتے تھے
اس گلی سے کبھی مجھے ماں نے گزارا نہ تھا
لگتا تھا جیسے بازار یہ کھلونوں کا تھا
کون کہتا ہے وقت دہراتا ہے اپنے آپ کو
گر یہ سچ ہے تو میرا بچپن تو لوٹائےکوئی
کچھ نہیں چاہئے تجھ سے اے مری عمر رواں
مرا بچپن مرے جگنو مری گڑیا لا دے