پھر مری آنکھ ہو گئی نمناک

پھر مری آنکھ ہو گئی نمناک
پھر کسی نے مزاج پوچھا ہے
ملتے ہیں اس ادا سے کہ گویا خفا نہیں
کیا آپ کی نگاہ سے ہم آشنا نہیں
ستاروں سے الجھتا جا رہا ہوں
شب فرقت بہت گھبرا رہا ہوں
ترے غم کو بھی کچھ بہلا رہا ہوں
جہاں کو بھی سمجھتا جا رہا ہوں
کل رات برستی رہی ساون کی گھٹا بھی
اور ہَم بھی تیری یاد میں دِل کھول كے روئے
بوٹ ڈاسن نے بنایا میں نے اک مضموں لکھا
ملک میں مضموں نہ پھیلا اور جوتا چل گیا
مجھ سے تو پوچھنے آیا ہے وفا کے معنی
یہ تری سادہ دلی مار نہ ڈالے مجھ کو
ان كے بارے میں ہے اپ ٹو ڈیٹ اپنی آگہی
کون سے تھے جن كے ہم زخم جدائی سہہ گئے
شکر ہے نسوار کی ڈبیہ پہ آئینہ بھی ہے
دیکھ لیتے ہیں كے کتنے دانت باقی رہ گئے