مجھ کو دیکھو مرے مرنے کی تمنا دیکھو

مجھ کو دیکھو مرے مرنے کی تمنا دیکھو
پھر بھی ہے تم کو مسیحائی کا دعویٰ دیکھو
مجھ کو دیکھو مرے مرنے کی تمنا دیکھو
پھر بھی ہے تم کو مسیحائی کا دعویٰ دیکھو
خیال جس کا تھا مجھے خیال میں ملا مجھے
سوال کا جواب بھی سوال میں ملا مجھے
جہاں میں تھی بس اک افواہ تیرے جلووں کی
چراغ دیر و حرم جھلملائے ہیں کیا کیا
دِل پریشان ہے شب و روز کی یک رنگی سے
کل بھی تنہائی تھی اور آج بھی تنہائی ہے
کوٹ اور پتلون جب پہنا تو مسٹر بن گیا
جب کوئی تقریر کی جلسے میں لیڈر بن گیا
یوں ناکام رہیں گے کب تک جی میں ہے اک کام کریں
رسوا ہو کر مر جاویں اس کو بھی بد نام کریں
میں پا سکا نہ کبھی اِس خلش سے چھٹکارا
وہ مجھ سے جیت بھی سکتا تھا جانے کیون ہارا
برس كے کھل گئے آنسو نتھر گئی ہے فضا
چمک رہا ہے سرِ شام دَرْد کا تارا