میں پا سکا نہ کبھی اِس خلش سے چھٹکارا
وہ مجھ سے جیت بھی سکتا تھا جانے کیون ہارا
برس كے کھل گئے آنسو نتھر گئی ہے فضا
چمک رہا ہے سرِ شام دَرْد کا تارا
کسی کی آنکھ سے ٹپکا تھا اک امانت ہے
میری ہتھیلی پہ رکھا ہوا یہ انگارہ
جو پر سمیٹے تو اک شاخ بھی نہیں پائی
کھلے تھے پر تو مرا آسمان تھا سارا
وہ سانپ چھوڑ دے ڈسنا یہ میں بھی کہتا ہوں
مگر نہ چھوڑیں گے لوگ اِس کو گر نہ پھنکارا