کشتی بھی نہیں بدلی دریا بھی نہیں بدلہ
کشتی بھی نہیں بدلی دریا بھی نہیں بدلہ
اور ڈوبنے والوں کا جذبہ بھی نہیں بدلہ
ہے شوق سفر ایسا اک عرصہ سے یارو
منزل بھی نہیں پائی رستہ بھی نہیں بدلہ
کشتی بھی نہیں بدلی دریا بھی نہیں بدلہ
اور ڈوبنے والوں کا جذبہ بھی نہیں بدلہ
ہے شوق سفر ایسا اک عرصہ سے یارو
منزل بھی نہیں پائی رستہ بھی نہیں بدلہ
ہم ایسے سادہ دلوں کی نیاز مندی سے
بتوں نے کی ہیں جہاں میں خدائیاں کیا کیا
یہ جو رات دن میرے ساتھ ہیں ، وہی اجنبی کے ہیں اجنبی
وہ جو دھڑکنوں كے اَساس تھے ، وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی
آنکھ سے دور نہ ہو دل سے اتر جائے گا
وقت کا کیا ہے گزرتا ہے گزر جائے گا