برسوں گزر گئے رو کر نہیں دیکھا
برسوں گزر گئے رو کر نہیں دیکھا
آنكھوں میں نیند تھی سو کر نہیں دیکھا
وہ کیا جانے درد محبت کا
جس نے کسی کا ہو کر نہیں دیکھا
برسوں گزر گئے رو کر نہیں دیکھا
آنكھوں میں نیند تھی سو کر نہیں دیکھا
وہ کیا جانے درد محبت کا
جس نے کسی کا ہو کر نہیں دیکھا
اس کا رونا نہیں کیوں تم نے کیا دل برباد
اس کا غم ہے کہ بہت دیر میں برباد کیا
اک سفر میں کوئی دو بار نہیں لٹ سکتا
اب دوبارہ تری چاہت نہیں کی جا سکتی
تم ہو اک زندۂ جاوید روایت کے چراغ
تم کوئی شام کا سورج ہو کہ ڈھل جاؤ گے
سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا
کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا
بے حس ہیں یہاں لوگ بھلا سوچ كے کرنا
اِس دور میں لوگوں سے وفا سوچ كے کرنا
گل شاخ سے بچھڑے تو کہیں کا نہیں رہتا
تم ذات میری خود سے جدا سوچ كے کرنا
جن کی خاطر شہر بھی چھوڑا جن کے لیے بدنام ہوئے
آج وہی ہم سے بیگانے بیگانے سے رہتے ہیں