زیست کا اعتبار کیا ہے امیرؔ
زیست کا اعتبار کیا ہے امیرؔ
آدمی بلبلہ ہے پانی کا
اسے کہنا خزائیں آگئی ہیں اب تو لو ٹ آئے
اسے کہنا دسمبر کی ہوائیں یاد کرتی ہیں
شب کے سناٹے میں یہ کس کا لہو گاتا ہے
سرحد درد سے یہ کس کی صدا آتی ہے
کچھ تو تنہائی کی راتوں میں سہارا ہوتا
تم نہ ہوتے نہ سہی ذکر تمہارا ہوتا
جو مری شبوں کے چراغ تھے جو مری امید کے باغ تھے
وہی لوگ ہیں مری آرزو وہی صورتیں مجھے چاہئیں
یہاں کسی کو بھی کچھ حسب آرزو نہ ملا
کسی کو ہم نہ ملے اور ہم کو تو نہ ملا
میں ابھی طفلِ مکتب ہوں مجھ کو سمجھایا جائے
دِل مر سا گیا ہے ، دفنایا جائے كہ جلایا جائے