آئے بھی لوگ بیٹھے بھی اٹھ بھی کھڑے ہوئے
آئے بھی لوگ بیٹھے بھی اٹھ بھی کھڑے ہوئے
میں جا ہی ڈھونڈتا تری محفل میں رہ گیا
آئے بھی لوگ بیٹھے بھی اٹھ بھی کھڑے ہوئے
میں جا ہی ڈھونڈتا تری محفل میں رہ گیا
وہ خط جو تم نے کبھی لکھا ہی نہیں
میں روز بیٹھ کر اس کا جواب لکھتا ہوں
سنتے ہیں عشق نام کے گزرے ہیں اک بزرگ
ہم لوگ بھی فقیر اسی سلسلے کے ہیں
شکایتیں بھی بہت ہیں حکایتیں بھی بہت
مزا تو جب ہے کہ یاروں کے رو بہ رو کہیے
بن گئی ہے دِل کے مجبوری ملاقاتیں
ہو گئی ہے اب تو ضروری ملاقاتیں
آنكھوں سے کچھ کہہ کے بچھڑ جانا
جان لے لیں گی یہ ادھوری ملاقاتیں