اس کی حسرت ہے جسے دل سے مٹا بھی نہ سکوں
اس کی حسرت ہے جسے دل سے مٹا بھی نہ سکوں
ڈھونڈنے اس کو چلا ہوں جسے پا بھی نہ سکوں
اس کی حسرت ہے جسے دل سے مٹا بھی نہ سکوں
ڈھونڈنے اس کو چلا ہوں جسے پا بھی نہ سکوں
کام اب کوئی نہ آئے گا بس اک دل کے سوا
راستے بند ہیں سب کوچۂ قاتل کے سوا
باعث رشک ہے تنہا رویٔ رہ رو شوق
ہم سفر کوئی نہیں دورئ منزل کے سوا
چمن میں رہنے والوں سے تو ہم صحرا نشیں اچھے
بہار آ کے چلی جاتی ہے ویرانی نہیں جاتی
میری پوشاک تو پہچان نہیں ہے میری
دل میں بھی جھانک مری ظاہری حالت پہ نہ جا
ہر اک موسم میں وہ اندازِ بدلتا ہوا نظر آئے
خزاں ہو یا برسات وہ مچلتا ہوا نظر آئے
پتھر کا جو بنتا تھا وہ شخص اب ہَم کو
ہلکی سے اک چوٹ پہ بگھلتا ہوا نظر آئے
تم آئے ہو تمہیں بھی آزما کر دیکھ لیتا ہوں
تمہارے ساتھ بھی کچھ دور جا کر دیکھ لیتا ہوں
مجھے پسند نہیں ایسے کاروبار میں ہوں
یہ جبر ہے کہ میں خود اپنے اختیار میں ہوں