ہر اک موسم میں وہ اندازِ بدلتا ہوا نظر آئے
خزاں ہو یا برسات وہ مچلتا ہوا نظر آئے
پتھر کا جو بنتا تھا وہ شخص اب ہَم کو
ہلکی سے اک چوٹ پہ بگھلتا ہوا نظر آئے
سمیٹ لیتا ہے خود کو وہ انجان سی راہ میں
گرنے سے پہلے ہی وہ سنمھلتا ہوا نظر آئے
اور صبح کی لالی میں وہ چمکتا ہوا آفتاب
پِھر رات كے پہلو میں وہ سلگتا ہوا نظر آئے
ہر لمحہ خوشی کا ہے یوں مہربان اس پر
پر تنہیایوں كے شور میں وہ جلتا ہوا نظر آئے