ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں

ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں
گھر میں رہتے ہوئے غیروں کی طرح ہوتی ہیں
لڑکیاں دھان کے پودوں کی طرح ہوتی ہیں
اڑ کے اک روز بہت دور چلی جاتی ہیں
گھر کی شاخوں پہ یہ چڑیوں کی طرح ہوتی ہیں
سہمی سہمی ہوئی رہتی ہیں مکان دل میں
آرزوئیں بھی غریبوں کی طرح ہوتی ہیں
مجھ میں اور شمع میں ہوتی تھی یہ باتیں شب ہجر
آج کی رات بچیں گے تو سحر دیکھیں گے
بظاہر سادگی سے مسکرا کر دیکھنے والو
کوئی کمبخت ناواقف اگر دیوانہ ہو جائے
اپنے حالات کو کیسے کیسے جیاء میں نے
وہ جو درد تھا تیرا کیسے کیسے پیاء میں نے
زندگی بھلے اک طویل راہ تھی میری
مگر تیری ذات کی خاطر جیاء میں نے
وہ جو عمر تھی تیری میرا پاسبان تھی
کیا تھا جو سپرد تیرے خود کو ہرایا تھا میں نے
چلا تھا جو تیری اوور چھوڑا تھا سب کچھ
مزید پڑھیں […]
گیا جہان سے ادنا یا کوئی اعلا گیا
کسی کا غم بھی کہاں دیر تک سنبھالا گیا
سلیقہ اس میں مجھے اک ذرا دِکھے تو سہی
کہا جو کام ہمیشہ وہ کل پہ ٹالا گیا
قُصور ہو گا تُمہارا بھی کچھ نہ کچھ گُڑیا
سبب تو ہے جو تمہیں گھر سے یوں نکالا گیا
چلے جو مخالف کوئی میرے ہمراہ
تو احباب میرے کہیں مجھ کو شتّاہ
سنو میرے احباب اک بات میری
مناسب ہے مل کر چلیں جب ہو یکراہ
یہ طعنہ زنی تم جو کرتے ہو مجھ پر
تمہارے لیے کب بنا ہوں میں سرواہ