جھکی جھکی سی نظر بے قرار ہے کہ نہیں
جھکی جھکی سی نظر بے قرار ہے کہ نہیں
دبا دبا سا سہی دل میں پیار ہے کہ نہیں
جھکی جھکی سی نظر بے قرار ہے کہ نہیں
دبا دبا سا سہی دل میں پیار ہے کہ نہیں
میں اپنے آپ کو سلگا رہا ہوں اس توقع پر
کبھی تو آگ بھڑکے گی کبھی تو روشنی ہو گی
اب ملاقات ہوئی ہے تو ملاقات رہے
نہ ملاقات تھی جب تک کہ ملاقات نہ تھی
دل نے مار ڈالا ہے
دماغ کی سوچ کو
کبھی کبھی تو چھلک پڑتی ہیں یوں ہی آنکھیں
اداس ہونے کا کوئی سبب نہیں ہوتا
ہر لمحہ پکارا اسے ، ہر وقت صدا دی
یوں خود جلا یوں ہی رقیب جلائے ہیں
اب کی بار آئے گا تو نہ جا پائے گا عامر
نام لکھ اس کا یوں در و دیوار سجائے ہیں