چند سانسیں خریدنے کے لیے
چند سانسیں خریدنے کے لیے
زندگی روز بیچتا ہوں تجھے
میرے دل سے اس کی یادیں مٹا دیجئے
میں چیخوں چلاؤں گا مگر انتباہ نا کیجیے
مجھ پہ ظلم و ستم کی انتہاء کیجئے
مگر خدارا اِس مسئلے کا حَل نکال دیجئے
پیاس وہ دل کی بجھانے کبھی آیا بھی نہیں
کیسا بادل ہے جسکا کوئی سایہ بھی نہیں
بے رخی اس سے بڑی اور بھلا کیا ہوگی
ایک مدت سے ہمیں اس نے ستایا بھی نہیں
پچھلے سفر میں جو کچھ بیتا بیت گیا یارو لیکن
اگلا سفر جب بھی تم کرنا دیکھو تنہا مت کرنا
آئینہ خود بھی سنورتا تھا ہماری خاطر
ہم ترے واسطے تیار ہوا کرتے تھے