پیاس وہ دل کی بجھانے کبھی آیا بھی نہیں
کیسا بادل ہے جسکا کوئی سایہ بھی نہیں
بے رخی اس سے بڑی اور بھلا کیا ہوگی
ایک مدت سے ہمیں اس نے ستایا بھی نہیں
روز آتا ہے در دل پہ وہ دستک دینے
آج تک ہم نے جسے پاس بلایا بھی نہیں
سن لیا کیسے خدا جانے زمانے بھر نے
وہ فسانہ جو کبھی ہم نے سنایا بھی نہیں
تم تو شاعر ہو قتیل اور وہ اک عام سا شخص
اس نے چاہا بھی تجھے اور جتایا بھی نہیں