ایسا ہے کہ سب خواب مسلسل نہیں ہوتے

ایسا ہے کہ سب خواب مسلسل نہیں ہوتے
جو آج تو ہوتے ہیں مگر کل نہیں ہوتے
اندر کی فضاؤں کے کرشمے بھی عجب ہیں
مینہ ٹوٹ کے برسے بھی تو بادل نہیں ہوتے
احمد فراز کی مشہور غزلوں کا مجموعہ پڑھیے
ایسا ہے کہ سب خواب مسلسل نہیں ہوتے
جو آج تو ہوتے ہیں مگر کل نہیں ہوتے
اندر کی فضاؤں کے کرشمے بھی عجب ہیں
مینہ ٹوٹ کے برسے بھی تو بادل نہیں ہوتے
کہا تھا کس نے کہ عہدِ وفا کرو اُس سے
جو یوں کِیا ہے تو پھر کیوں گلہ کرو اُس سے
نصیب پھر کوئی تقریبِ قرب ہو کہ نہ ہو
جو دل میں ہوں، وہی باتیں کہا کرو اُس سے
اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں
جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں
ڈھونڈ اجڑے ہوئے لوگوں میں وفا کے موتی
یہ خزانے تجھے ممکن ہے خرابوں میں ملیں
تیری باتیں ہی سنانے آئے
دوست بھی دل ہی دکھانے آئے
پھول کھلتے ہیں تو ہم سوچتے ہیں
تیرے آنے کے زمانے آئے
دل تو وہ برگِ خزاں ہے کہ ہوا لے جائے
غم وہ آندھی ہے کہ صحرا بھی اُڑا لے جائے
کون لایا تری محفل میں ہمیں ہوش نہیں
کوئی آئے تری محفل سے اُٹھا لے جائے
اس کو جدا ہوئے بھی زمانہ بہت ہوا
اب کیا کہیں یہ قصہ پرانا بہت ہوا
ڈھلتی نہ تھی کسی بھی جتن سے شب فراق
اے مرگ ناگہاں ترا آنا بہت ہوا
ہم خلد سے نکل تو گئے ہیں پر اے خدا
اتنے سے واقعے کا فسانہ بہت ہوا
سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
سو اس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے ربط ہے اس کو خراب حالوں سے
سو اپنے آپ کو برباد کر کے دیکھتے ہیں
کب کون کسی کا ہوتا ہے
سب جھوٹے رشتے ناتے ہیں
سب دل رکھنے کی باتیں ہیں
سب اصلی روپ چھپاتے ہیں
مزید پڑھیں "کب کون کسی کا ہوتا ہے”