نہ اب وہ یادوں کا چڑھتا دریا نہ فرصتوں کی اداس برکھا

نہ اب وہ یادوں کا چڑھتا دریا نہ فرصتوں کی اداس برکھا
یوں ہی ذرا سی کسک ہے دل میں جو زخم گہرا تھا بھر گیا وہ
نہ اب وہ یادوں کا چڑھتا دریا نہ فرصتوں کی اداس برکھا
یوں ہی ذرا سی کسک ہے دل میں جو زخم گہرا تھا بھر گیا وہ
اب تک مری یادوں سے مٹائے نہیں مٹتا
بھیگی ہوئی اک شام کا منظر تری آنکھیں
اب کر کے فراموش تو ناشاد کرو گے
پر ہم جو نہ ہوں گے تو بہت یاد کرو گے
دِل كے پہلو میں یادوں کا سفر جاری ہے
دکھ نمایاں ہے مگر چاہت کا سفر جاری ہے
کاش مل جائیں کبھی یوں راہوں میں چلتے چلتے
لرزتے ہونٹوں پے دعاؤں کا سفر جاری ہے
خیالوں میں بھٹک جانا ، تیری یادوں میں کھو جانا
بہت ہی مہنگا پڑا ہَم کو ، ستم گر تیرا ہو جانا
اُداسی ، شام ، تنہائی ، کسک اور یادوں کے بے چینی
مجھے سب سونپ کر سورج اُتَر جاتا ہے پانی میں
وفا کریں گے نباہیں گے بات مانیں گے
تمہیں بھی یاد ہے کچھ یہ کلام کس کا تھا