اجالے اپنی یادوں کے ہمارے ساتھ رہنے دو
اجالے اپنی یادوں کے ہمارے ساتھ رہنے دو
نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہو جائے
اجالے اپنی یادوں کے ہمارے ساتھ رہنے دو
نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہو جائے
خُدا جانے کیوں
تیری یاد بہت بیمار تھی گزشتہ رات
ساری رات اُس کے ماتھے پر
ٹھنڈے پانی کی پٹی رکھ کر
پاوٴں دبا کر، ہاتھ سہلا کر مزید پڑھیں […]
ایک مدت سے تری یاد بھی آئی نہ ہمیں
اور ہم بھول گئے ہوں تجھے ایسا بھی نہیں
نہ زمین ہے میری قرار گاہ نہ فلک ہے منزل جذب دل
بڑی دیر سے ہے سفر میرا تیر ی یاد سے تیری یاد تک
ذخمی ہے دل مگر دوا کی طلب نہیں
خوشی گوارا نہیں ہاں کسی سبب نہیں
ملیے مگر ذرا کترا کر ملیں حضور
اب منکرِوفا ہوں وہی باآدب نہیں
مرتے ہیں روز کئی لوگ راہِ وفا میں یوں
اُنکی قبر پر کوئی نام نہیں کتبہ نصب نہیں
میں تھا اور تھی ساتھ تیری یاد مسلسل
کہہ دوں کہ تو ہی ساتھ تھا تو یہ عجب نہیں
ہم کلامی کو کہتے ہیں کبیرہ گناہ
اُنکی نظر جو ڈھائے ستم وہ غضب نہیں
سہہ لوں گا نعمانؔ جیتنے بھی وار ہوں جسم پر
مگر آنکھ سے نہیں دل کی ضرب نہیں
ابھی بھی چاند راتوں میں یہاں پریاں اترتی ہیں
اماوس میں ابھی بھی نور میرے ساتھ چلتا ہے
ہوائیں اب بھی مجھ کو دیر تک لوری سناتی ہیں
فضائیں اب بھی میرے ساتھ مل کو گنگناتی ہیں
مزید پڑھیں […]