زندگی تجھ سے امید وفا کیا رکھوں

زندگی تجھ سے امید وفا کیا رکھوں
جب مجھے چھوڑ گئے دوست پُرانے میرے
یاد ہیں غالب ! تجھے وہ دن کہہ وجدِ ذوق میں
زخم سے گرتا ، تو میں پلکوں سے چنتا تھا نمک
اِس بارش كے موسم میں عجیب سے کشش ہے
نہ چاہتے ہوئے بھی کوئی شدت سے یاد آتا ہے
اس کی مہکی ہوئی یادوں کی صدا جاگ اٹھی
دور افق پر جو نظر آیا کبھی عید کا چاند
تجھے بھولنے کی کوششیں کبھی کامیاب نہ ہو سکیں
تیری یاد شاخِ گلاب ہے جو ہوا چلی تو مہک گئی
وہ جو دودھ شہد کی کھیر تھی
وہ جو نرم مثلِ حریر تھی
وہ جو آملے کا اچار تھا
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا
تمھیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
تم میری آنكھوں كے تیور نہ بھلا پاؤ گے
ان کہی بات کو سمجھو گے تو یاد آؤں گا
ملے الجنوں سے فرصت تو ذرا دِل سے پوچھ لینا
کیا دوستی یہی ہے صرف فرصتوں میں یاد کرنا