جو ہمارے بِیچ میں تھا فاصلہ رہنے دیا

جو ہمارے بِیچ میں تھا فاصلہ رہنے دیا
اپنی کشتی کا پُرانا نا خُدا رہنے دیا
لُوٹ کا تھا مال آخِر بانٹنا تو تھا ضرُور
ہم نے اپنا لے لیا بخرا، تِرا رہنے دیا
جو ہمارے بِیچ میں تھا فاصلہ رہنے دیا
اپنی کشتی کا پُرانا نا خُدا رہنے دیا
لُوٹ کا تھا مال آخِر بانٹنا تو تھا ضرُور
ہم نے اپنا لے لیا بخرا، تِرا رہنے دیا
سلامت چاہتے ہو دِل تو اِتنی بات مانو گے
تُمہیں لینا پڑے جو فیصلہ وہ زہن سے لو گے
پتا کیا وقت کیسا کھیل کھیلے، ہم بِچھڑ جائیں
کہاں ہوں گے نجانے ہم، نجانے تُم کہاں ہو گے
کیا بتائیں دوستو دُنیا نے توڑا کِس طرح
ریشۂِ اُمید سے پِھر دل کو جوڑا کِس طرح
تُم نے ماضی کو کُریدا ہے تو پِھر اِتنا کہو
زخم ہو گا مُندمِل، جائے گا پھوڑا کِس طرح؟؟
وُہ مِرا دوست مِرے حال سے آگاہ تو ہو
نا سہی سچ میں مگر خواب میں ہمراہ تو ہو
کُچھ اثر اُن پہ مِری آہ و فُغاں کا یارو
ہو نہ ہو، پِھر بھی مِرے لب پہ کوئی آہ تو ہو
کُچھ نہِیں پایا ہے ہم نے اِس بھرے سنسار میں
پُھول سے دامن ہے خالی گر چہ ہیں گُلزار میں
پِھر محبّت اِس طرح بھی اِمتحاں لیتی رہی
جیب خالی لے کے پِھرتے تھے اِسے بازار میں
ہم نے ہر ہر بل کے بدلے خُوں بہایا ہے یہاں
تب کہِیں جا کر پڑے ہیں پیچ یہ دستار میں
غم کی کِس شکل میں تشکِیل ہُوئی جاتی ہے
آدمیت کی بھی تذلِیل ہُوئی جاتی ہے
ہر قدم زِیست چھنکتی ہے چھناکا بن کر
جِس طرح کانچ میں تبدِیل ہُوئی جاتی ہے
کب ہم نے کہا تُم سے محبّت ہے، نہِیں تو
دِل ہِجر سے آمادۂِ وحشت ہے، نہِیں تو
باتیں تو بہُت کرتے ہیں ہم کُود اُچھل کر
اِس عہد میں مزدُور کی عِزّت ہے، نہِیں تو
دیکھا ہے جو اِک میں نے وہی خواب بہُت ہے
ورنہ تو وفا دوستو! کمیاب بہُت ہے
یہ دِل کی زمِیں بنجر و وِیران پڑی تھی
تھوڑی سی ہُوئی تُُجھ سے جو سیراب بہُت ہے