یہ سانحہ تو کسی دن گزرنے والا تھا
یہ سانحہ تو کسی دن گزرنے والا تھا
میں بچ بھی جاتا تو اک روز مرنے والا تھا
یہ سانحہ تو کسی دن گزرنے والا تھا
میں بچ بھی جاتا تو اک روز مرنے والا تھا
گھر سے یہ سوچ کہ نکلا ہوں کہ مر جانا ہے
اب کوئی راہ دکھا دے کہ کدھر جانا ہے
کالج کے سب بچے چپ ہیں کاغذ کی اک ناؤ لیے
چاروں طرف دریا کی صورت پھیلی ہوئی بیکاری ہے
بہت غرور ہے دریا کو اپنے ہونے پر
جو میری پیاس سے الجھے تو دھجیاں اڑ جائیں
راز جو کچھ ہو اشاروں میں بتا بھی دینا
ہاتھ جب ان سے ملانا تو دبا بھی دینا
اب تو ہر ہاتھ کا پتھر ہمیں پہچانتا ہے
عمر گزری ہے ترے شہر میں آتے جاتے
آنکھ میں پانی رکھو ہونٹوں پہ چنگاری رکھو
زندہ رہنا ہے تو ترکیبیں بہت ساری رکھو