یاد ہے اب تک تجھ سے بچھڑنے کی وہ اندھیری شام مجھے

یاد ہے اب تک تجھ سے بچھڑنے کی وہ اندھیری شام مجھے
تو خاموش کھڑا تھا لیکن باتیں کرتا تھا کاجل
یاد ہے اب تک تجھ سے بچھڑنے کی وہ اندھیری شام مجھے
تو خاموش کھڑا تھا لیکن باتیں کرتا تھا کاجل
نیت شوق بھر نہ جائے کہیں
تو بھی دل سے اتر نہ جائے کہیں
آج دیکھا ہے تجھ کو دیر کے بعد
آج کا دن گزر نہ جائے کہیں
بلاؤں گا نہ ملوں گا نہ خط لکھوں گا تجھے
تری خوشی کے لیے خود کو یہ سزا دوں گا
کب سے اپنی تلاش میں گم ہوں
اے خدا مجھ کو مجھ پہ افشا کر
کون بانٹے گا دکھ تیرے ناصر
دوستوں سے بھی چُھپ كہ رویا کر
نہ پوچھو کس خرابے میں پڑے ہیں
تہہ ابر رواں پیاسے کھڑے ہیں
ذرا گھر سے نکل کر دیکھ ناصر
چمن میں کس قدر پتے جھڑے ہیں
یہ آج کون سے طوفان میں ہے سفینہ دل
كے دور دور کنارے نظر نہیں آتے
ہجوم یاس ہے اور منزلوں اندھیرا ہے
وہ رات ہے كے ستارے نظر نہیں آتے