ایک قیامت کی خراشیں تیرے سر پہ سجیں

ایک قیامت کی خراشیں تیرے سر پہ سجیں
ایک محشر میرے اندر سے اٹھا تیرے بعد
ایک قیامت کی خراشیں تیرے سر پہ سجیں
ایک محشر میرے اندر سے اٹھا تیرے بعد
میں دل پہ جبر کروں گا تجھے بھلا دوں گا
مروں گا خود بھی تجھے بھی کڑی سزا دوں گا
یہ تیرگی مرے گھر کا ہی کیوں مقدر ہو
میں تیرے شہر کے سارے دیئے بجھا دوں گا
یہاں مزدور کو مرنے کی جلدی یوں بھی ہے محسن
کہ زندگی کی کشمکش میں کفن مہنگا نہ ہو جائے
کس لیے محسن کسی بے مہر کو اپنا کہوں
دل کے شیشے کو کسی پتّھر سے کیوں ٹکراؤں میں
عکس و آئینہ میں اب ربط ہو کیا تیرے بعد
ہم تو پھرتے ہیں خود اپنے سے خفا تیرے بعد
وہ آج بھی صدیوں کی مسافت پہ کھڑا ہے
ڈھونڈا تھا جسے وقت کی دیوار گرا کر
شمار اُسکی سخاوت کا کیا کریں کہ وہ شخص
چراغ بانٹتا پھرِتا ہے چھین کر آنکھیں