ہم حقیقت ہیں تو تسلیم نہ کرنے کا سبب

ہم حقیقت ہیں تو تسلیم نہ کرنے کا سبب
ہاں اگر حرف غلط ہیں تو مٹا دو ہم کو
ہم حقیقت ہیں تو تسلیم نہ کرنے کا سبب
ہاں اگر حرف غلط ہیں تو مٹا دو ہم کو
تُم جی کر دیکھ لو حقیقتوں کی گہری وادیوں میں
میرے لئیے تو خوابوں کا شہر ہی کافی ہے
ملبوس خوش نما ہیں مگر جسم کھوکھلے
چھلکے سجے ہوں جیسے پھلوں کی دکان پر
بچوں کی فیس ان کی کتابیں قلم دوات
میری غریب آنکھوں میں اسکول چبھ گیا
میرے دستِ دامن میں یہ جو چند خوشیاں ہیں
یہ بھی مجھ کو پرائی سی لگتی ہیں
دیکھوں اگر ان غموں کو
تو یہ بھی کسی كے دیئے لگتے ہیں
سوچوں اگر اِس فلسفہ زندگی کو نبیل
تو بس موت اپنی ، باقی یہ سانسیں بھی امانت سی لگتی ہے
لہریں مار جاتی ہے ٹھوکر آ کر تجھے اے ساحل
کبھی تو بھی کنارے سے کنارہ کر لے
ہر اک موسم میں وہ اندازِ بدلتا ہوا نظر آئے
خزاں ہو یا برسات وہ مچلتا ہوا نظر آئے
پتھر کا جو بنتا تھا وہ شخص اب ہَم کو
ہلکی سے اک چوٹ پہ بگھلتا ہوا نظر آئے
گھر پہنچتا ہے کوئی اور ہمارے جیسا
ہم ترے شہر سے جاتے ہوئے مر جاتے ہیں