میں اس کو دیکھ کے چپ تھا اسی کی شادی میں

میں اس کو دیکھ کے چپ تھا اسی کی شادی میں
مزا تو سارا اسی رسم کے نباہ میں تھا
میں اس کو دیکھ کے چپ تھا اسی کی شادی میں
مزا تو سارا اسی رسم کے نباہ میں تھا
عشق اداسی کے پیغام تو لاتا رہتا ہے دن رات
لیکن ہم کو خوش رہنے کی عادت بہت زیادہ ہے
دل
اک زخمی پرندہ
جس کے بازو
تھکن اور بے بسی سے
شل ہوچکے ہیں
جہاں بھر کے دکھوں کا بوجھ سنبھالے
بہت ہلکان
بے حد پریشان
مزید پڑھیں […]
تم میرے لیے اتنے پریشان سے کیوں ہو
میں ڈوب بھی جاتا تو کہیں اور ابھرتا
چھالے تھے جنہیں دیکھ کے کہنے لگا بچہ
بابا میری ہاتھوں میں ستارے تو نہیں ہیں
اسی کھنڈر میں کہیں کچھ دیے ہیں ٹوٹے ہوئے
انہیں سے کام چلاؤ بڑی اداس ہے رات
ماں کی دعا نہیں باپ کی شفقت کا سایہ نہیں
میرے مقدر میں ماں باپ کا پیار تو آیا نہیں
میرے حال سے کسی کو ہے نہ کوئی بھی واسطہ
مجھے تو مدتوں سے کسی نے بیٹا کہ کر بلایا نہیں