اپنی طبیعت کا مزاج بھی بہت عجیب ہے

اپنی طبیعت کا مزاج بھی بہت عجیب ہے
لوگ موت سے ڈرتے ہے اور ہَم تیری جدائی سے
اپنی طبیعت کا مزاج بھی بہت عجیب ہے
لوگ موت سے ڈرتے ہے اور ہَم تیری جدائی سے
حَسِین خواب دکھا کے بھول جاتے ہیں
لوگ اپنا بنا کے بھول جاتے ہیں
جدائی کا نام سن كے رونے والے
کچھ دور جا كے بھول جاتے ہیں
جدا ہو کر بھی دونوں جی رہے ہیں ایک مدت سے
کبھی دونوں ہی کہتے تھے كے ایسا ہو نہیں سکتا
میری قربتیں بھی سراب ہیں یہ بھلا ہُوا جو ملی نہیں
تیری دوریاں بھی عذاب ہیں میرے دشتِ جاں سے ٹلیں نہیں
آنكھوں کو انتظار کا دے کر ہنر چلا گیا
چاہا تھا اک شخص کو جانے کدھر چلا گیا
اگر وہ زندگی میں فقط ایک بار میرا ہو جاتا
تو میں زمانے کی کتابوں سے لفظ بیوفائی ہی مٹا دیتا
تجھے بھولنے کی کوششیں کبھی کامیاب نہ ہو سکیں
تیری یاد شاخِ گلاب ہے جو ہوا چلی تو مہک گئی
عشق کا اپنا غرور حسن کی اپنی انا
ان سے آیا نہ گیا ہم سے بھلایا نہ گیا