سفر کے واسطے کچھ اسباب آج دے ڈالو

سفر کے واسطے کچھ اسباب آج دے ڈالو
بہت سی دعائیں اور نئے خواب دے ڈالو
میرے غموں نے میرے چراغوں کو بجھا رکھا ہے
راہ میں روشنی كے لیے کچھ ماہتاب آج دے ڈالو
سفر کے واسطے کچھ اسباب آج دے ڈالو
بہت سی دعائیں اور نئے خواب دے ڈالو
میرے غموں نے میرے چراغوں کو بجھا رکھا ہے
راہ میں روشنی كے لیے کچھ ماہتاب آج دے ڈالو
انوکھی وضع ہے سارے زمانے سے نرالے ہیں
یہ عاشق کون سی بستی کے یارب رہنے والے ہیں
وہ جو کہتا تھا عشق میں کیا رکھا ہے
ایک ہیر نے اسے رانجھا بنا رکھا ہے
ورق ورق پہ تیری عبارت ، تیرا فسانہ ، تیری حکایت
کتابِ ہستی جہاں سے کھولی ، تیری محبت کا باب نکلا
مقصد زیست غم عشق ہے صحرا ہو کہ شہر
بیٹھ جائیں گے جہاں چاہو بٹھا دو ہم کو
کتابیں عشق کی پڑھ کر نا سمجھو خود کو عاشق تم
یہ دِل کا کام دِل والوں کو کرنے دو تو اچھا ہے