عشق نازک مزاج ہے بے حد
عشق نازک مزاج ہے بے حد
عقل کا بوجھ اٹھا نہیں سکتا
آہوں سے سوز عشق مٹایا نہ جائے گا
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
اب تو ہر ہاتھ کا پتھر ہمیں پہچانتا ہے
عمر گزری ہے ترے شہر میں آتے جاتے
میرے سجدوں كے تسلسل کو تو کیا جانے اے ہم نشیں
سر جھکتا تو تجھے مانگا ہاتھ اٹھایا تو تجھے مانگا
کمال عشق ہے دیوانہ ہو گیا ہوں میں
یہ کس کے ہاتھ سے دامن چھڑا رہا ہوں میں