شاید تم آ ؤ میں نے اِسی انتظار میں

شاید تم آ ؤ میں نے اِسی انتظار میں
اب کے برس کی عید بھی تنہا گزار دی
شاید تم آ ؤ میں نے اِسی انتظار میں
اب کے برس کی عید بھی تنہا گزار دی
اِک رات وہ گیا تھا جہاں بات روک کے
اب تک رکا ہواہوں وہیں رات روک کے
میری وفا كے دیپ وہ سرِ شام جلائے گا
خود روشنی کے بھنور میں الجھتا ہی جائے گا
یوں رات اسکی سوچنے میں گزری تھی اِس طرح
كے صبح کا سورج کون سا پیغام لائے گا
میرا کارنامہ زندگی میری حسرتوں كے سوا کچھ نہیں
یہ کیا نہیں ، وہ ہوا نہیں ، یہ ملا نہیں ، وہ رہا نہیں
وہ خوشی تھا امید تھا اک احساس تھا
بعد میں یہ گمان ہوا بس پل دو پل کا ساتھ تھا
رہتا ہے آج بھی انتظار اِس آنکھ کو کسی اپنے کا
وہ جا کر آج بھی ساتھ ہے جو کبھی ہمارے پاس تھا
آنكھوں میں انتظار كے لمحات سونپ کر
نیندیں بھی لے گیا وہ اپنے سفر كے ساتھ