اس کے آنے سے عید ہوئی

اس کے آنے سے عید ہوئی
چاند چہرہ دکھانے سے عید ہوئی
جس کو چھوڑا تھا کبھی میں نے
اس کے ناز اٹھانے سے عید ہوئی
اس کے آنے سے عید ہوئی
چاند چہرہ دکھانے سے عید ہوئی
جس کو چھوڑا تھا کبھی میں نے
اس کے ناز اٹھانے سے عید ہوئی
میرے یار نصیب ہوں تجھے ہزار عیدیں
تو خوش رہے چاہے ہوں میری بےکار عیدیں
کبھی تو ساتھ ہو گا تو عید كے دن
میں بھی کروں گا خوشیوں میں شمار عیدیں
شاید تم آ ؤ میں نے اِسی انتظار میں
اب کے برس کی عید بھی تنہا گزار دی
عید آئی تم نہ آئےکیامزا ہے عید کا
عید ہی تو نام ہے اک دوسرے کی دید کا
اُدھر سے چاند تم دیکھو، ادھر سے چاند ہم دیکھیں
نگاہیں یوں ٹکرائیں کہ دو دلوں کی عید ہو جائے
غم ہی غم ہیں تری امید میں کیا رکھا ہے
عید آیا کرے اب عید میں کیا رکھا ہے
تجھ کو میری نہ مجھے تیری خبر جائے گی
عید اب کے بھی دبے پاؤں گزر جائے گی