میرے دل سے اس کی یادیں مٹا دیجئے

میرے دل سے اس کی یادیں مٹا دیجئے
میں چیخوں چلاؤں گا مگر انتباہ نا کیجیے
مجھ پہ ظلم و ستم کی انتہاء کیجئے
مگر خدارا اِس مسئلے کا حَل نکال دیجئے
میرے دل سے اس کی یادیں مٹا دیجئے
میں چیخوں چلاؤں گا مگر انتباہ نا کیجیے
مجھ پہ ظلم و ستم کی انتہاء کیجئے
مگر خدارا اِس مسئلے کا حَل نکال دیجئے
دل نے مار ڈالا ہے
دماغ کی سوچ کو
پھر وہی لمبی دوپہریں ہیں پھر وہی دل کی حالت ہے
باہر کتنا سناٹا ہے اندر کتنی وحشت ہے
او دل توڑ کے جانے والے دل کی بات بتاتا جا
اب میں دل کو کیا سمجھاؤں مجھ کو بھی سمجھاتا جا
حال دِل کیا کہیں صنم تم کو
شب غم کیوں ختم نہیں ہوتی
رخ جانا نقاب اُتار ذرا
خلش دِل ہی کم نہیں ہوتی
تم جو وعدہ اگر نبھا لیتے
آج یہ چشم نم نہیں ہوتی
بس اک جھجک ہے یہی حال دل سنانے میں
کہ تیرا ذکر بھی آئے گا اس فسانے میں
اس کی حسرت ہے جسے دل سے مٹا بھی نہ سکوں
ڈھونڈنے اس کو چلا ہوں جسے پا بھی نہ سکوں
میری پوشاک تو پہچان نہیں ہے میری
دل میں بھی جھانک مری ظاہری حالت پہ نہ جا