آغاز محبت کا انجام بس اتنا ہے

آغاز محبت کا انجام بس اتنا ہے
جب دل میں تمنا تھی اب دل ہی تمنا ہے
آنکھوں کو پھوڑ ڈالوں یا دل کو توڑ ڈالوں
یا عشق کی پکڑ کر گردن مروڑ ڈالوں
کبھی بیٹھ میرے سامنے تجھے حال دل سنائے ہم
تیرے بن کیسے تڑپتے ہیں یہ بھی تجھے بتلائے ہم
دل
اک زخمی پرندہ
جس کے بازو
تھکن اور بے بسی سے
شل ہوچکے ہیں
جہاں بھر کے دکھوں کا بوجھ سنبھالے
بہت ہلکان
بے حد پریشان
مزید پڑھیں […]
سبھی کچھ ہو چکا ان کا ہمارا کیا رہا حسرتؔ
نہ دیں اپنا نہ دل اپنا نہ جاں اپنی نہ تن اپنا
دل کا کیا ہے دل نے کتنے منظر دیکھے لیکن
آنکھیں پاگل ہو جاتی ہیں ایک خیال سے پہلے
کس لیے محسن کسی بے مہر کو اپنا کہوں
دل کے شیشے کو کسی پتّھر سے کیوں ٹکراؤں میں
دل کی منزل اُس طرف ہے گھر کا رستہ اِس طرف
ایک چہرہ اُس طرف ہے ایک چہرہ اس طرف