خود کو سبز ہی رکھا آنسوؤں کی بارش میں

خود کو سبز ہی رکھا آنسوؤں کی بارش میں
ورنہ ہجر کا موسم کس کو راس آتا ہے
تو ہواؤں کا موسم تجھ کو کیا خبر جاناں
گردِ بعد گمانی سے دل بھی ٹوٹ جاتا ہے
خود کو سبز ہی رکھا آنسوؤں کی بارش میں
ورنہ ہجر کا موسم کس کو راس آتا ہے
تو ہواؤں کا موسم تجھ کو کیا خبر جاناں
گردِ بعد گمانی سے دل بھی ٹوٹ جاتا ہے
ٹوٹ جاتا ہے غریبی میں وہ رشتہ جو خاص ہوتا ہے
ہزاروں یار بنتے ہیں جب پیسہ پاس ہوتا ہے
میں شب کا بھی مجرم ہوں سحر کا بھی ہوں مجرم
یارو مجھے اِس شہر كے آداب سکھا دو
ہَم چراغوں کو تو تاریکی سے لڑنا ہے فراز
گل ہونے پر صبح كے آثار بن جائیں گے ہَم
مرنے کی دعائیں کیوں مانگوں، جینے کی تمنا کون کرے
یہ دنیا ہو یا وہ دنیا، اب خواہشِ دنیا کون کرے
ملا تو اور بھی تقسیم کر گیا مجھ کو
سمیٹنا تھی جسے میری کرچیاں محسن
دل نا امید تو نہیں ، ناكام ہی تو ہے
لمبی ہے غم کی شام ، مگر شام ہی تو ہے