یہ کافی ہے کہ ہم دشمن نہیں ہیں

یہ کافی ہے کہ ہم دشمن نہیں ہیں
وفا داری کا دعویٰ کیوں کریں ہم
تو قادر او عادل ہے مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات
نہ جانے کس لیے امیدوار بیٹھا ہوں
اک ایسی راہ پہ جو تیری رہ گزر بھی نہیں
یہ اڑی اڑی سی رنگت یہ کھلے کھلے سے گیسو
تری صبح کہہ رہی ہے تری رات کا فسانہ
یوں تسلی دے رہے ہیں ہم دل بیمار کو
جس طرح تھامے کوئی گرتی ہوئی دیوار کو
یہ صبح کی سفیدیاں یہ دوپہر کی زردیاں
اب آئینے میں دیکھتا ہوں میں کہاں چلا گیا
دشمنوں کے ساتھ میرے دوست بھی آزاد ہیں
دیکھنا ہے کھینچتا ہے مجھ پہ پہلا تیر کون