اس شب کے مقدر میں سحر ہی نہیں محسن

اس شب کے مقدر میں سحر ہی نہیں محسن
دیکھا ہے کئی بار چراغوں کو بجھا کر
اس شب کے مقدر میں سحر ہی نہیں محسن
دیکھا ہے کئی بار چراغوں کو بجھا کر
کل ماتم بے قیمت ہوگا آج ان کی توقیر کرو
دیکھو خون جگر سے کیا کیا لکھتے ہیں افسانے لوگ
رکھ کے منہ سو گئے ہم آتشیں رخساروں پر
دل کو تھا چین تو نیند آ گئی انگاروں پر
عجیب شخص ہے ناراض ہو کے ہنستا ہے
میں چاہتا ہوں خفا ہو تو وہ خفا ہی لگے
کانٹوں سے دل لگاؤ جو تا عمر ساتھ دیں
پھولوں کا کیا جو سانس کی گرمی نہ سہ سکیں
عامر کسی کو زلفیں ، کسی کو پسند آنکھیں
ہے جو زیرِ لب تل ، ہے وہ جان کسی کی