حسیں تیری آنکھیں حسیں تیرے آنسو

حسیں تیری آنکھیں حسیں تیرے آنسو
یہیں ڈوب جانے کو جی چاہتا ہے
اِس لیے تو بچوں پر نور برستا ہے
شرارتیں تو کرتے ہیں سازشیں نہیں کرتے
تو بھی اے شخص کہاں تک مجھے برداشت کرے
بار بار ایک ہی چہرہ نہیں دیکھا جاتا
روٹھ جانے کی ادا ہَم کو بھی آتی ہےفراز
کاش ہوتا کوئی ہَم کو بھی منانے والا
عشق کے اظہار میں ہر چند رسوائی تو ہے
پر کروں کیا اب طبیعت آپ پر آئی تو ہے
جب کبھی ٹوٹ کر بکھرو تو بتانا ہَم کو
ہَم تمہیں ریت كے ذروں سے بھی چن سکتے ہیں
کہانی لکھتے ہوئے داستاں سناتے ہوئے
وہ سو گیا ہے مجھے خواب سے جگاتے ہوئے
کچھ لوگ جو سوار ہیں کاغذ کی ناؤ پر
تہمت تراشتے ہیں ہوا کے دباؤ پر