نظر انداز کرتے ہو ، لو ہٹ جاتے ہیں نظروں سے
نظر انداز کرتے ہو ، لو ہٹ جاتے ہیں نظروں سے
انہی نظروں سے ڈھونڈو گے ، نظر جب ہَم نہ آئیں گے
نظر انداز کرتے ہو ، لو ہٹ جاتے ہیں نظروں سے
انہی نظروں سے ڈھونڈو گے ، نظر جب ہَم نہ آئیں گے
پتہ نہیں کیا ہے نام اس کا ، خدا فریبی كے خود فریبی
عمل سے فارغ ہوا مسلماں بنا كے تقدیر بہانا
چارہ گر ، آج ستاروں کی قسم کھا کے بتا
کس نے انساں کو تبسم کے لیے ترسایا
دسمبر کی سرد اُداس کالی راتوں میں
تیرے ہجر کے ناگ بہت ڈسا کرتے ہیں
یہ سہانا موسم عاشقی اور تمہاری آنکھ کے سوال ؟
رووٹھو مت جاناں ، ہم ہر جواب جانتے ہیں
نظر نظر کا فرق ہوتا ہے حسن کا نہیں اقبال
محبوب جس کا بھی ہو جیسا بھی ہو بے مثال ہوتا ہے
جب بھی کوئی سرد ہوا کا جھونکا میرے چہرے سے ٹکرایا ہے
تیرا آہیں بھر بھر کر سسکنا میرے دِل کو محسوس ہوتا ہے