غم ہے نہ اب خوشی ہے نہ امید ہے نہ یاس
غم ہے نہ اب خوشی ہے نہ امید ہے نہ یاس
سب سے نجات پائے زمانے گزر گئے
غم ہے نہ اب خوشی ہے نہ امید ہے نہ یاس
سب سے نجات پائے زمانے گزر گئے
بچوں کی طرح چاہے مجھے ڈانٹ لے کوئی
لیکن شرط ہے میرے غم بانٹ لے کوئی
نہ تیری یاد نہ دنیا کا غم نہ اپنا خیال
عجیب صورت حالات ہو گئی پیارے
میں اپنی ذات میں نیلام ہو رہا ہوں قتیل
غم حیات سے کہہ دو خرید لائے مجھے
یا تومیرے مزاج میں رچ بس گئے ہیں غم
یا دل کو احتجاج کی عادت نہیں رہی
تجھے پانے کی کوشش میں کچھ اتنا کھو چکا ہوں میں
کہ تو مل بھی اگر جائے تو اب ملنے کا غم ہوگا
غم اور خوشی میں فرق نہ محسوس ہو جہاں
میں دل کو اس مقام پہ لاتا چلا گیا