آنکھ کی یہ ایک حسرت تھی کہ بس پوری ہوئی

آنکھ کی یہ ایک حسرت تھی کہ بس پوری ہوئی
آنسوؤں میں بھیگ جانے کی ہوس پوری ہوئی
آنکھ کی یہ ایک حسرت تھی کہ بس پوری ہوئی
آنسوؤں میں بھیگ جانے کی ہوس پوری ہوئی
اب تک مری یادوں سے مٹائے نہیں مٹتا
بھیگی ہوئی اک شام کا منظر تری آنکھیں
میں نے اپنی خشک آنکھوں سے لہو چھلکا دیا
اک سمندر کہہ رہا تھا مجھ کو پانی چاہئے
جلائے رکھوں گی صبح تک میں تمہارے رستوں میں اپنی آنکھیں
مگر کہیں ضبط ٹوٹ جائے تو بارشیں بھی شمار کرنا
ساری رات کی جاگی آنکھیں
کالج میں کیا پڑھتی ہوں گی
یونہی کھوئے دِل ہی دِل میں
جانے کیا کیا کرتی ہوں گی