غم زمانہ نے مجبور کر دیا ورنہ
غم زمانہ نے مجبور کر دیا ورنہ
یہ آرزو تھی کہ بس تیری آرزو کرتے
تیری باتیں ہی سنانے آئے
دوست بھی دل ہی دکھانے آئے
پھول کھلتے ہیں تو ہم سوچتے ہیں
تیرے آنے کے زمانے آئے
اس کی آنكھوں کو کبھی غور سے دیکھا ہے فراز
سونے والوں کی طرح جاگنے والوں جیسی
وہ پاگل سی لڑکی اور آوارہ راستوں کی جنبش
صاف بتا رہی تھی کہ اداسیوں کا دور ہے
پھر نظر میں پھول مہکے دل میں پھر شمعیں جلیں
پھر تصور نے لیا اس بزم میں جانے کا نام