محبت میں کہیں کم ہو گیا ہے
محبت میں کہیں کم ہو گیا ہے
مرا تجھ پر یقیں کم ہو گیا ہے
صبا تو کیا کہ مجھے دھوپ تک جگا نہ سکی
کہاں کی نیند اُتر آئی ہے ان آنکھوں میں
ایک ہی ندی کے ہیں یہ دو کنارے دوستو
دوستانہ زندگی سے موت سے یاری رکھو
جانے وہ کیسے لوگ تھے جن کے پیار کو پیار ملا
ہم نے تو جب کلیاںمانگیں، کانٹوںکا ہار ملا
آج بھی وہ تقدس بھری رات مہکی ہوئی ہے وصی
میں کسی میں ، کوئی مجھ میں ڈھلتا رہا ، چاند جلتا رہا
تیرے غصے بھرے لہجے کو بھی ترستی ہوں
اپنی پری کو کچھ تو سناو بابا
وہ ساتھ تھا ہمارے ، یا ہَم پاس تھے اس کے
وہ زندگی كے کچھ دن ، یا زندگی تھی کچھ دن