ہم تو تم سے وفا کرتے رہے

ہم تو تم سے وفا کرتے رہے
مگر تم تھے جو ہم سے دغا کرتے رہے
ہم کو تمھارے سے کوئی رنجش تھی نہ کوئی غم تھا
مگر تم تھے جو ہم سے گلا کرتے رہے
ہم نے تم کو سمجھایا, بہت کچھ بتایا
مگر تم تھے جو ہم پر ابہام کرتے رہے
بے لگام کرتے رہے
بہت کاوشيں کیں تم کو راضی کرنے کی ہم نے
مگر تم تھے جو بار بار نا کرتے رہے
بےپناہ کرتے رہیں
(شہریار احمد)

انکی تیکھ نگاہیں دیکھ

انکی تیکھ نگاہیں دیکھ ، میں نے کیا سَر جھکا دیا
خدا کو خدا سمجھ بیٹھے ، مشرک مجھے بنا دیا

اب کہتے ہیں مجھ کو سجدہ کرو ، پر انکی کوئی خطا نہیں
تھی میرے عشق کی انتہا ، عرش پر انہیں بٹھا دیا

کس نے کہا تھا تمہیں ، بے حجاب ملنے آیا کرو
پہلے تو صرف عاشق تھا ، دیوانا مجھے بنا دیا

اپنے عشق کی داستان ، تھوڑی عجیب و غریب ہے
خود تو وہ لیلی بن نہ سکی ، اور مجنوں مجھے بنا دیا

ساحل کو الزام نہ دو ، ساحل کی خطا نہیں
تیرے ہی تقبر نے ، نظر سے تجھے گرا دیا

تماش بیں

کسی خوابیدہ وادی کے ہرے آنچل سے آیا ہوں
میں جس کو باغ کہتا تھا اسی جنگل سے آیا ہوں

شرارت تھی کسی کی، کر گیا کتنے برس پہلے
نتیجہ دیکھنے کے واسطے مقتل سے آیا ہوں

ساقی نہ پلا ، بھر بھر كے

ساقی نہ پلا ، بھر بھر كے
مجھے مے سے سروکار نہیں

آتا ہوں پینے ، نگاہوں سے
رند ہوں ، بادہ خار نہیں

ہر بات میں فاعدے کی بات کرتے ہو
یہ عشق ہے میری جان ، کاروبار نہیں

میں جان بوجھ كے تیری باتوں میں آجاتا ہوں
جتنا سمجھتے ہو ، تم اتنے ہوشیار نہیں

تیری چاہ میں تیرے دام بک گئے ورنہ
اتنے ارزاں تو میرے گیسو تابدار نہیں

وہ دن گئے جب دِل میں بسا کرتے تھے
اب میری آنکھوں کو ، تیرا انتظار نہیں

کیوں خود کو برباد کر رہے ہو ساحل
تم جانتے ہو ، كے وہ وفا دار نہیں