کچھ لوگ تمہیں سمجھائیں گے

‏کچھ لوگ تمہیں سمجھائیں گے
وہ تم کو خوف دلائیں گے
جو ہے وہ بھی کھو سکتا ہے
اس راہ میں رہزن ہیں اتنے
کچھ اور یہاں ہو سکتا ہے
کچھ اور تو اکثر ہوتا ہے
پر تم جس لمحے میں زندہ ہو
یہ لمحہ تم سے زندہ ہے
یہ وقت نہیں پھر آۓ گا
تم اپنی کرنی کر گزرو
جو ہو گا دیکھا جاۓ گا

میرے اشک كے مقابل نہیں ، تیری آنکھیں

آب خنک میں ڈوب گئے شمس و قمر
میرے اشک كے مقابل نہیں ، تیری آنکھیں

جھیل نما کیا ، سمندر نما ھوں گی
میرے دِل سے نہیں گہری ، تیری آنکھیں

خوبصورتی نظارے میں نہیں ، نظر میں ہوتی ہے
میری آنکھوں کو لگتی ہیں خوبصورت ، تیری آنکھیں

لبوں سے کہہ رہی ہو نہ ملا کرو
اور کچھ اور کہہ رہی ہیں ، تیری آنکھیں

ساگر و پیمانے سے ،واعظ نے دوستی کرلی
بن گئے رند صوفی ، جب سے دیکھیں ، تیری آنکھیں

یونہی بدنام ہیں میری گستاخ نگاہیں
صبح سے شام تک کتنوں کو تکتی ہیں ، تیری آنکھیں

او طوفانوں سے لڑنے والے سکندر
کیوں ساحل پہ ڈوب گئی ، تیری آنکھیں