چمن میں گل نے جو کل دعویٰ جمال کیا
چمن میں گل نے جو کل دعویٰ جمال کیا
جمال یار نے منہ اس کا خوب لال کیا
چمن میں گل نے جو کل دعویٰ جمال کیا
جمال یار نے منہ اس کا خوب لال کیا
بچے اسکول جائیں اور واپس نہ آئیں
اے خدا ایسا دسمبر پھر کبھی نہ آئے
اس ستم گر کی حقیقت ہم پہ ظاہر ہو گئی
ختم خوش فہمی کی منزل کا سفر بھی ہو گیا
سوچ تو اب تک زندہ کیوں ہے
سوچ کے کچھ تو ہونا ہے
سوچ کے بادل گرج رہا ہے
سوچ کے جیون سونا ہے
سوچ کے تو انسان بڑا ہے
سوچ کے تیرا نام بڑا
سوچ کے تو خوشیاں پائے گا
سوچ کے تیرا کام بڑا
گر سوچ نہیں سکتا یہ سب
تو سوچ بَدَل اور جان بڑھا
کردے دُنیا کا دِل روشن
اور اپنے نام کی شان بڑھا
یہ بھی فخر ہے كے کسی نے وفا کی
بن گیا میرا میرے زخموں کی دوا کی
بھلا ہی دیئے مجھے اس نے دکھ سبھی
بن كے ملا ہے مجھ کو نعمت خدا کی
جدا تھے ہم تو میسر تھیں قربتیں کتنی
بہم ہوئے تو پڑی ہیں جدائیاں کیا کیا