کس لیے محسن کسی بے مہر کو اپنا کہوں
کس لیے محسن کسی بے مہر کو اپنا کہوں
دل کے شیشے کو کسی پتّھر سے کیوں ٹکراؤں میں
کس لیے محسن کسی بے مہر کو اپنا کہوں
دل کے شیشے کو کسی پتّھر سے کیوں ٹکراؤں میں
دل کی منزل اُس طرف ہے گھر کا رستہ اِس طرف
ایک چہرہ اُس طرف ہے ایک چہرہ اس طرف
اب تو خود اپنی ضرورت بھی نہیں ہے ہم کو
وہ بھی دن تھے کہ کبھی تیری ضرورت ہم تھے
اپنے گھر کوواپس جاؤ رو روکر سمجھاتا ہے
جہاں بھی جاؤں میرا سایہ پیچھے پیچھے آتا ہے
کیا جانے کیا لکھا تھا اسے اضطراب میں
قاصد کی لاش آئی ہے خط کے جواب میں
میں بھی بہت عجیب ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں
عکس و آئینہ میں اب ربط ہو کیا تیرے بعد
ہم تو پھرتے ہیں خود اپنے سے خفا تیرے بعد