مت پوچھ كے کس طرح سے چل رہی ہے زندگی

مت پوچھ كے کس طرح سے چل رہی ہے زندگی
اس دور سے گزر رہے ہیں جو گزرتا ہی نہیں
مت پوچھ كے کس طرح سے چل رہی ہے زندگی
اس دور سے گزر رہے ہیں جو گزرتا ہی نہیں
بہت حسیں سہی تیری عقیدتوں کے گلاب
حسین تر ہے مگر ہر گلِ خیال ترا
ہم ایک درد کے رشتے میں منسلک دونوں
تجھے عزیز مرا فن، مجھے جمال ترا
کبھی سحر تو کبھی شام لے گیا مجھ سے
تمہارا درد کئی کام لے گیا مجھ سے
اس سے ملنا تو اسے عید مبارک کہنا
یہ بھی کہنا کہ مری عید مبارک کر دے
یہاں مزدور کو مرنے کی جلدی یوں بھی ہے محسن
کہ زندگی کی کشمکش میں کفن مہنگا نہ ہو جائے
وہ تو خوشبو ہے، ہواؤں میں بکھر جائے گا
مسئلہ پُھول کا ہے، پُھول کدھر جائے گا
ہم تو سمجھے تھے کہ اِک زخم ہے، بھر جائے گا
کیا خبر تھی کہ رگِ جاں میں اُتر جائے گا
دیکھا کتاب عشق کے اوراق کھول کر
اول بھی تیرا نام تھا، آخر بھی تیرا نام
افلاس کی بستی میں جا کر تو دیکھو
وہاں بچے تو ہوتے ہیں مگر بچپن نہیں ہوتا