جب ملو کسی سے تو ذرا دور کی یاری رکھنا

جب ملو کسی سے تو ذرا دور کی یاری رکھنا
جان لیوا ہوتے ہیں اکثر سینے سے لگانے والے
جب ملو کسی سے تو ذرا دور کی یاری رکھنا
جان لیوا ہوتے ہیں اکثر سینے سے لگانے والے
وہ زرد پتوں کی پہلی بارش
اور موسموں کا مچلتے رہنا
وہ گنگناتی لہروں کی سرگم
اور یوں تیری یادوں کا سلگتے رہنا
وہ مرض عشق ہی کیا عباس جس میں جلدی شفا ملے
کون مانگے گا خوشیوں کی دعا جس کو درد میں خدا ملے
تو سامنے ہے تو پھر کیوں یقیں نہیں آتا
یہ بار بار جو آنکھوں کو مل کے دیکھتے ہیں
ہمارے ارمانوں سے سجاؤ، شاہ وقت اور محل بناؤ
اپنا تو فٹ پاتھ ٹھکانہ، دیکھ کے ہم کو مت شرماؤ
یہ رم جھم،یہ بارش، یہ آوارگی کا موسم
ہمارے بس میں ہوتا تیرے پاس چلے آتے
اسے کہنا
جفت اور طاق کا نہیں
ہم سے کوئی واسطہ
ہمیں تو جب لگی ضرب لگی
اور بس تقسیم ہوئے